2022 SCMR 1131
2022 SCMR 1131
پڑ پوتے یعنی گریٹ گرینڈ چلڈرن کے پرسٹراپس( propositus) میراث میں حصے کے حوالے سے سپریم کورٹ کا ایک اہم فیصلہ !
فیصلے کی تفصیل میں جانے سے پہلے کیس کے مختصر حقائق کچھ یوں ہیں کہ:
تمیز النسا نام کی ایک عورت جو کہ اس کیس میں مورث اعلیٰ ہیں یعنی جس سے میراث کی تقسیم کا آغاز ہوتا ہے ۔ تمیز النسا انیس جون دو ہزار پندرہ کو فوت ہوجاتی ہیں اور اپنے پیچھے ترکے میں اسلام آباد میں ایک رہائشی گھر چھوڑ دیتی ہیں ۔ یاد رہے کہ تمیز النسا کے دو بیٹے ان سے پہلے ہی فوت ہوئے تھے جن میں ایک کا نام نواب الدین تھا اور یہ انیس سو بیانوے میں فوت ہوا تھا ۔ نواب الدین کا بھی ایک بیٹا تھا جس کا نام عزیز الرحمان تھا جو کہ رشتے میں تمیز النسا کا پوتا لگتا تھا لیکن یہاں سے اصل مسئلے یعنی اس کیس کا آغاز ہوتا ہے اور آغاز ایسے ہوتا ہے کہ تمیز النسا کا عزیز الرحمان نامی پوتا بھی تمیز النسا سے پہلے یعنی دو ہزار پانچ میں فوت ہوجاتا ہے اور تمیز النسا کی وفات دو ہزار پندرہ میں ہوئ ہوتی ہے اور اس کیس کے پیٹیشنرز بھی عزیز الرحمان کے بیٹے یعنی تمیز النسا کے پڑ پوتے ہیں ۔ اب ہوتا یہ ہے کہ تمیز النسا کے پڑپوتے مسلم فیملی لاز آرڈیننس کے سیکشن فور کے تحت تمیز النسا کے ترکے میں اپنے حصے کے لئے اسلام آباد کے سول جج کے پاس کیس کرلیتے ہیں جو کہ خارج ہوجاتی ہے ۔ وہاں سے پیٹیشنرز ہائ کورٹ میں کیس کرتے ہیں اور ہائ کورٹ بھی ان کا کیس خارج کر دیتی ہے ۔ سول جج اور ہائ کورٹ سے کیس خارج ہونے کے بعد پیٹیشنرز سپریم کورٹ میں سی پی ایل اے فائل کرتے ہیں اور یہاں سے سپریم کورٹ میں اس کیس کا آغاز ہوتا ہے ۔ سپریم کورٹ میں یہ کیس تین رکنی بینچ جو کہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال ، جسٹس منیب اختر اور جسٹس قاضی محمد امین احمد پر مشتمل ہوتی ہے ۔
سپریم کورٹ کے سامنے ایک ہی سوال رکھا گیا تھا جو کہ یہ ہے کہ کیا پڑ پوتے مسلم فیملی لاز آرڈیننس کے سیکشن فور میں مستعمل لفظ ” چلڈرن” میں شمار ہوں گے یا نہیں ؟
سپریم کورٹ نے اس سوال کا جواب یہ کیس خارج کر کے یہ دیا ہے کہ پڑپوتے “چلڈرن” میں شمار نہیں ہوتے اور یوں تمیز النسا کے پڑپوتے یعنی عزیز الرحمان کے بیٹے تمیز النسا کے ترکے میں کوئ حصہ نہیں رکھتے ۔ سپریم کورٹ نے اپنے اس جواب کا آغاز سیکشن فور ہی سے کیا ہے اور سیکشن فور کے الفاظ نقل کرنے کے بعد ہائ کورٹ کے فیصلے کا ایک پیراگراف نقل کیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اس سیکشن کو فیڈرل شریعت کورٹ نے خلاف اسلام قرار دیا ہے لیکن چونکہ اس فیصلے کے خلاف اپیل ہوئ ہے جو کہ پینڈنگ ہے لہزا فیڈرل شریعت کورٹ کا فیصلہ معطل ہے اور یوں سیکشن فور مسلم فیملی لاز آرڈیننس کا حصہ ہے ۔
سپریم کورٹ میں پیٹیشنرز کے وکیل کا سارا دار و مدار سیکشن فور میں مستعمل اصطلاح “پر سٹرائپس ” رہی اور ان کا سارا زور اس بات پر رہا کہ پوتوں کے پہلے فوت ہونے کی صورت میں پڑپوتے ، پوتوں کی جگہ لے لیتے ہیں ۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں “پر سٹراپس ” کی اصطلاح کے حوالے سے لکھا ہے کہ یہ اصطلاح مشہور کیس لا ” PLD 1990 SC 1051 ” میں پہلے ہی اس پر تفصیلی بحث کے بعد فیصلہ ہوچکا ہے ۔ اور اس کے بعد صراحتاً یہ لکھا ہے کہ سیکشن فور صرف ان پوتوں کے لیے ہے جو مورث اعلیٰ کی وفات کے وقت ذندہ ہوں اور اس کے بعد جسٹس صاحب نے فیصلے میں لکھا ہے کہ اس بات میں کوئ شک نہیں کہ اسلامی قوانین میں اس پوتے کا اپنے نانا یا دادا کے میراث میں کوئ حصہ نہیں ہوتا جس کا باپ اس کے نانا یا دادا سے پہلے فوت ہوجائے لیکن ساتھ میں یہ بھی لکھا ہے کہ سیکشن فور اس مندرجہ بالا رول میں ایک ایکسیپشن ہے اور اس کے بعد مزید لکھا ہے کہ سیکشن فور میں “چلڈرن” لفظ استعمال ہوا ہے نہ کہ “قانونی وارث ” اور یہ بات بھی اس پر دلالت کرتی ہے کہ موجودہ پیٹیشنرز کا کیس سیکشن فور کے تحت نہیں آتا ۔ فیصلے کے آخر میں سپریم کورٹ نے سول جج اور ہائ کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے یہ فیصلہ دیا کہ پڑپوتے سیکشن فور کے تحت میراث کے حق دار نہیں ہیں یعنی کہ عزیز الرحمان کے بیٹوں کا تمیز النسا کی جائیداد میں کوئ حصہ نہیں بنتا